میلاد النبی ﷺ کی مخالفت کیوں ؟ ۔تحریر : محمد اسمٰعیل بدایونی
)مخالفت کے محرکات عالمی تناظر میں(
)مخالفت کے محرکات عالمی تناظر میں(
اسٹاف روم میں تما م پروفیسرز بیٹھے ہوئے تھے میرے ایک ساتھی نے مجھ سے سوال کیا کہ آخر کچھ لوگ میلاد کی مخالفت کیوں کرتے ہیں ؟
میں نے اُن سے کہا کہ میں اس کالج میں ٹرانسفر ہونے سے پہلے جس کالج میں تھا اس کی کہانی سُناتا ہوں آپ کی سمجھ میں بات آاسانی سے آ جائے گی
وہ بہت سینئر پرو فیسر تھے ان کی ساری زندگی پڑھانے میں گزری پر معلوم نہیں کیوں انہیں ، نوجوان لیکچرارعبد اللہ سے شدید چڑ ہو نے لگی تھی ۔۔۔۔۔عبد اللہ ہمارے کالج میں نیا نیا لیکچرار اپائینٹ ہو اتھا ، بہت ذہین نوجوان تھا اساتذہ کا بھی ہر دلعزیز تھا ۔
کالج کے تمام اسٹاف کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتا ۔۔۔۔طلبا عبد اللہ کے دیوانے تھے بس جہاں وہ کلاس لینے پہنچے .کالج کے گراؤنڈ میں کھیلتا ہوا طالبِ علم کھیل چھوڑ کر عبداللہ کی کلاس میں آجاتا تھا ۔
اس بات پر سینئر پروفیسر شدید رنج و غم کا شکار تھے اتفاق سے دو سیکشن میں ان کا پیریڈ عبد اللہ سے پہلے ہوتا تھا اور وہ عبد اللہ سے کہتے تم ذرا دس منٹ بعد آیا کرو ۔
عبد اللہ سینئر پروفیسر ہو نے کا خیال کرتے ہوئے دس منٹ بعد جاتا تو معلوم ہوتا کہ پرو فیسر صاحب ۱۰ منٹ پہلے ہی کلاس ختم کر دیتے ہیں تاکہ بچے گھروں کو چلے جائیں اور عبد اللہ کا لیکچر نہ سُن سکیں اور وہ کہہ سکیں کہ میرے بعد والے لیکچر میں تو طلبا عبد اللہ کا لیکچر سُننے نہیں رکتے ۔۔۔۔۔یہ طریقہ کار وہ حسد کی بنا پر اپناتے تھے ۔
بالکل ایسے ہی یہودیوں کو بھی نبی کریم ﷺ سے حسد تھا اور ہے انہیں اس بات کا حسد تھا کہ نبوت بنی اسرائیل سے بنی اسمٰعیل میں کیونکر منتقل ہو گئی ۔۔۔۔اب وہ نبی کریم ﷺ کا تذکرہ سنتے ہیں تواُن کے سینوں پر سانپ لوٹ جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے بنو نضیر کے ذریعے نبی کریم ﷺ کی جان لینے کی کوشش کی ان یہودیوں کی کوششوں سے غزوۂ احزاب کا واقعہ پیش آیا ۔۔۔۔۔ ان کو ان کے کیے کی سزا بھی دی گئی یہ ایک زمانے تک اس بات کے خواہشمند رہے کہ نبی آخر الزماں ﷺ کا تذکرہ رک جائے ۔۔۔۔
وقت گزرتا رہا اسلام سے مختلف آندھیاں ٹکراتی رہیں کبھی معتزلہ کی شکل میں تو کبھی خوارج کی صورت کبھی تاتاریوں کی سفاکیت تو کبھی صلیبیت کی درندگی اسلام ان تما م فتنوں سے نبرد آزما ہوتا رہا لیکن نبی کریم ﷺ کا ذکر جمیل نہیں رکا ۔
اللہ کے نبی ﷺ کا ذکر ِ جمیل روکنے کے لیے ان یہود ونصاریٰ نے ’’ استشراق ‘‘ کے نام سے ایک قلمی فورس تشکیل دی اور انہی کی فکری تخریب کاری کو برؤئے کار لاتے ہوئے دیسی مستشرقین کی زبان سے کہلوایا کہ میلاد منانا کنہیا کے جنم سے بد تر ہے ۔۔۔۔۔۔ شرک و بدعت کے فتوے عائد کیے گئے ۔۔۔۔۔ انتہائی غیر محتاط زبان استعمال کرکے مسلمانوں میں خلیج اور نفرتیں پیدا کی گئیں ۔۔۔۔۔غیر منطقی دلائل اور جہالت نے اس خوشی کے موقع کو متنازع بنا دیا ۔۔۔۔اختلاف منانے کے طریقے پر ہوسکتا ہے مگرمیلاد النبی ﷺ منانے سے کسی مسلمان کو کیسے اختلاف ہو سکتا ہے میں میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں ۔۔۔۔
یہ ہی تو دشمن چاہتا تھا وہ ہم نے کر دیا ہمیں اصل دشمن کو دیکھنے کی ضرورت ہے اسلام کا حقیقی دشمن کون ہے؟
ہمیں اپنی صفوں سے ایسے لوگوں کو تلاش کرنا ہیں جو دشمن کی جنگ ہم سے لڑوانا چاہتے ہیں ۔۔۔۔ہمارے بچوں کی ذہنی و فکری صلاحیتوں کو دین اسلام کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے ۔۔۔۔۔ہمارےبچوں کو آپس میں دست وگریباں کرنا چاہتے ہیں ۔
لیکن بات وہی یہ سب کچھ کیوں کیا گیا؟
اس لیے کہ اگر نبی کریم ﷺ کاذکر ترک کر دیا گیا تو نتیجہ یہ نکلے گا اسلام ختم ہو جائے گا ۔۔۔۔در اصل اسلام مذہب نہیں ہے بلکہ ضابطہ حیات ہے گناہ گار سے گناہ گار انسان آج بھی خلافتِ اسلامیہ کے خواب ضرور دیکھتا ہے ۔۔۔۔۔ خلافتِ راشدہ کی مثال ہر مسلمان کی زبان پر ہوتی ہے اور سیرت النبی ﷺ کی تعلیمات اس کا اعادہ کرتی نظر آتی ہیں اس لیے اس قوم نے سوچا اگر مسلمانوں کو مکمل مفلوج کرنا ہے تو ان کو نبی کریم ﷺ کے ذکرِ جمیل سے روکنا ہو گا ۔
خدا کی قسم ! اگر کوئی قبیلہ یا قوم محمد مصطفے ﷺکا ذکر ِ جمیل چھوڑ دے تووہ شجرِ اسلام سے ایسے سوکھ کرجھڑ جائے گی جیسے خزاں کے موسم میں پتے درخت سے خشک ہو کر جھڑ جاتے ہیں ۔
تھوڑی دیر کے لیے تصور کر لیجیے کہ میلاد النبی ﷺ اور سیرت النبی ﷺ کے جلسے اب نہیں ہوتے یقین جانو تمہاری نسل اللہ کے نبی ﷺ کا نام بھول جائے گی اسلام تو بہت دور کی بات ہے۔۔۔
پوچھیے اپنے بچے سے دادا جان کا انتقال کب ہو ا تھا؟ تاریخ کیا تھی؟ تاریخ تو بہت دور کی بات دس ،بارہ سال کا عرصہ گزر جائے تو بچوں کو سال بھی یاد نہیں رہتا اور کسی بچے سے پوچھیے تمہارے پردادا کا کیا نام تھا وہ نہیں بتا سکے گا ۔
دوسری بات اللہ کے نبی ﷺکی محبت کامیابی کی ضمانت ہے جب ہم جشنِ ولادت مناتے ہیں تو خوشی سے مناتے ہیں اور خوشی انسان اسی کی مناتا ہے جس سے سب سے زیادہ محبت ہوتی ہے اس سے ہمیں دوسرا بڑا فائدہ یہ ہو تا ہے کہ ہماری آنے والی نسلوں کے دلوں میں حُبِّ رسول ﷺکاجذبہ پیدا ہوتا ہے اگر ہم ۱۲ ربیع الاول منا ناچھوڑ دیں تو یقین جانو ہماری نسلیں یہ بھول جائیں گی کہ پیغمبر اسلام ﷺ کا اسوۂ کیا تھا ؟ تعلیمات کیا تھیں ؟
اور یہ ہی ہمارا دشمن چاہتا ہے سیکولر ازم اور لبرل ازم کو تعلیماتِ نبوی ﷺ سے خطرہ ہے اور وہ اس خطرہ کو کم کرنے کے لیے میلاد کی مخالفت کو خوب ہوا دیتی ہے مسلم دانشوروں کو ایک مرتبہ اپنے رویوں کو ضرور جانچنا چاہیے کہیے وہ دانستہ یا نا دانستہ اسلام دشمن قوتوں کے آلہ کار تو نہیں بن رہے ۔۔۔۔
میں نے اُن سے کہا کہ میں اس کالج میں ٹرانسفر ہونے سے پہلے جس کالج میں تھا اس کی کہانی سُناتا ہوں آپ کی سمجھ میں بات آاسانی سے آ جائے گی
وہ بہت سینئر پرو فیسر تھے ان کی ساری زندگی پڑھانے میں گزری پر معلوم نہیں کیوں انہیں ، نوجوان لیکچرارعبد اللہ سے شدید چڑ ہو نے لگی تھی ۔۔۔۔۔عبد اللہ ہمارے کالج میں نیا نیا لیکچرار اپائینٹ ہو اتھا ، بہت ذہین نوجوان تھا اساتذہ کا بھی ہر دلعزیز تھا ۔
کالج کے تمام اسٹاف کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتا ۔۔۔۔طلبا عبد اللہ کے دیوانے تھے بس جہاں وہ کلاس لینے پہنچے .کالج کے گراؤنڈ میں کھیلتا ہوا طالبِ علم کھیل چھوڑ کر عبداللہ کی کلاس میں آجاتا تھا ۔
اس بات پر سینئر پروفیسر شدید رنج و غم کا شکار تھے اتفاق سے دو سیکشن میں ان کا پیریڈ عبد اللہ سے پہلے ہوتا تھا اور وہ عبد اللہ سے کہتے تم ذرا دس منٹ بعد آیا کرو ۔
عبد اللہ سینئر پروفیسر ہو نے کا خیال کرتے ہوئے دس منٹ بعد جاتا تو معلوم ہوتا کہ پرو فیسر صاحب ۱۰ منٹ پہلے ہی کلاس ختم کر دیتے ہیں تاکہ بچے گھروں کو چلے جائیں اور عبد اللہ کا لیکچر نہ سُن سکیں اور وہ کہہ سکیں کہ میرے بعد والے لیکچر میں تو طلبا عبد اللہ کا لیکچر سُننے نہیں رکتے ۔۔۔۔۔یہ طریقہ کار وہ حسد کی بنا پر اپناتے تھے ۔
بالکل ایسے ہی یہودیوں کو بھی نبی کریم ﷺ سے حسد تھا اور ہے انہیں اس بات کا حسد تھا کہ نبوت بنی اسرائیل سے بنی اسمٰعیل میں کیونکر منتقل ہو گئی ۔۔۔۔اب وہ نبی کریم ﷺ کا تذکرہ سنتے ہیں تواُن کے سینوں پر سانپ لوٹ جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے بنو نضیر کے ذریعے نبی کریم ﷺ کی جان لینے کی کوشش کی ان یہودیوں کی کوششوں سے غزوۂ احزاب کا واقعہ پیش آیا ۔۔۔۔۔ ان کو ان کے کیے کی سزا بھی دی گئی یہ ایک زمانے تک اس بات کے خواہشمند رہے کہ نبی آخر الزماں ﷺ کا تذکرہ رک جائے ۔۔۔۔
وقت گزرتا رہا اسلام سے مختلف آندھیاں ٹکراتی رہیں کبھی معتزلہ کی شکل میں تو کبھی خوارج کی صورت کبھی تاتاریوں کی سفاکیت تو کبھی صلیبیت کی درندگی اسلام ان تما م فتنوں سے نبرد آزما ہوتا رہا لیکن نبی کریم ﷺ کا ذکر جمیل نہیں رکا ۔
اللہ کے نبی ﷺ کا ذکر ِ جمیل روکنے کے لیے ان یہود ونصاریٰ نے ’’ استشراق ‘‘ کے نام سے ایک قلمی فورس تشکیل دی اور انہی کی فکری تخریب کاری کو برؤئے کار لاتے ہوئے دیسی مستشرقین کی زبان سے کہلوایا کہ میلاد منانا کنہیا کے جنم سے بد تر ہے ۔۔۔۔۔۔ شرک و بدعت کے فتوے عائد کیے گئے ۔۔۔۔۔ انتہائی غیر محتاط زبان استعمال کرکے مسلمانوں میں خلیج اور نفرتیں پیدا کی گئیں ۔۔۔۔۔غیر منطقی دلائل اور جہالت نے اس خوشی کے موقع کو متنازع بنا دیا ۔۔۔۔اختلاف منانے کے طریقے پر ہوسکتا ہے مگرمیلاد النبی ﷺ منانے سے کسی مسلمان کو کیسے اختلاف ہو سکتا ہے میں میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں ۔۔۔۔
یہ ہی تو دشمن چاہتا تھا وہ ہم نے کر دیا ہمیں اصل دشمن کو دیکھنے کی ضرورت ہے اسلام کا حقیقی دشمن کون ہے؟
ہمیں اپنی صفوں سے ایسے لوگوں کو تلاش کرنا ہیں جو دشمن کی جنگ ہم سے لڑوانا چاہتے ہیں ۔۔۔۔ہمارے بچوں کی ذہنی و فکری صلاحیتوں کو دین اسلام کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے ۔۔۔۔۔ہمارےبچوں کو آپس میں دست وگریباں کرنا چاہتے ہیں ۔
لیکن بات وہی یہ سب کچھ کیوں کیا گیا؟
اس لیے کہ اگر نبی کریم ﷺ کاذکر ترک کر دیا گیا تو نتیجہ یہ نکلے گا اسلام ختم ہو جائے گا ۔۔۔۔در اصل اسلام مذہب نہیں ہے بلکہ ضابطہ حیات ہے گناہ گار سے گناہ گار انسان آج بھی خلافتِ اسلامیہ کے خواب ضرور دیکھتا ہے ۔۔۔۔۔ خلافتِ راشدہ کی مثال ہر مسلمان کی زبان پر ہوتی ہے اور سیرت النبی ﷺ کی تعلیمات اس کا اعادہ کرتی نظر آتی ہیں اس لیے اس قوم نے سوچا اگر مسلمانوں کو مکمل مفلوج کرنا ہے تو ان کو نبی کریم ﷺ کے ذکرِ جمیل سے روکنا ہو گا ۔
خدا کی قسم ! اگر کوئی قبیلہ یا قوم محمد مصطفے ﷺکا ذکر ِ جمیل چھوڑ دے تووہ شجرِ اسلام سے ایسے سوکھ کرجھڑ جائے گی جیسے خزاں کے موسم میں پتے درخت سے خشک ہو کر جھڑ جاتے ہیں ۔
تھوڑی دیر کے لیے تصور کر لیجیے کہ میلاد النبی ﷺ اور سیرت النبی ﷺ کے جلسے اب نہیں ہوتے یقین جانو تمہاری نسل اللہ کے نبی ﷺ کا نام بھول جائے گی اسلام تو بہت دور کی بات ہے۔۔۔
پوچھیے اپنے بچے سے دادا جان کا انتقال کب ہو ا تھا؟ تاریخ کیا تھی؟ تاریخ تو بہت دور کی بات دس ،بارہ سال کا عرصہ گزر جائے تو بچوں کو سال بھی یاد نہیں رہتا اور کسی بچے سے پوچھیے تمہارے پردادا کا کیا نام تھا وہ نہیں بتا سکے گا ۔
دوسری بات اللہ کے نبی ﷺکی محبت کامیابی کی ضمانت ہے جب ہم جشنِ ولادت مناتے ہیں تو خوشی سے مناتے ہیں اور خوشی انسان اسی کی مناتا ہے جس سے سب سے زیادہ محبت ہوتی ہے اس سے ہمیں دوسرا بڑا فائدہ یہ ہو تا ہے کہ ہماری آنے والی نسلوں کے دلوں میں حُبِّ رسول ﷺکاجذبہ پیدا ہوتا ہے اگر ہم ۱۲ ربیع الاول منا ناچھوڑ دیں تو یقین جانو ہماری نسلیں یہ بھول جائیں گی کہ پیغمبر اسلام ﷺ کا اسوۂ کیا تھا ؟ تعلیمات کیا تھیں ؟
اور یہ ہی ہمارا دشمن چاہتا ہے سیکولر ازم اور لبرل ازم کو تعلیماتِ نبوی ﷺ سے خطرہ ہے اور وہ اس خطرہ کو کم کرنے کے لیے میلاد کی مخالفت کو خوب ہوا دیتی ہے مسلم دانشوروں کو ایک مرتبہ اپنے رویوں کو ضرور جانچنا چاہیے کہیے وہ دانستہ یا نا دانستہ اسلام دشمن قوتوں کے آلہ کار تو نہیں بن رہے ۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment